Your theme is not active, some feature may not work. Buy a valid license from stylothemes.com

شکرگزاری باعثِ شفا

شکرگزاری باعثِ شفا

شکرگزاری دراصل ہے کیا؟
اللہ کی عطا کردہ نعمتوں،اور مخلوق کی طرف سے ملنے والی بھلائیوں کا اقرار زبان سے،عمل سے اور دل سے کرنا۔
آپ کے پاس موجود جو بھی نعمتیں ہیں،وسائل ہیں ان پہ راضی رہنا۔تقابل نہ کرنا۔حسد نہ کرنا بلکہ خوش ہو کر دوسرے کو اس کے پاس موجود نعمت پہ دعا دینا۔کوئی معمولی سی نیکی بھی آپ کے ساتھ کرے تو اس کا احسان ماننا۔دل کو وساوس سے بچا کر خوش گمان رکھنا۔یہ سب باتیں شکرگزاری کے زمرے میں آتی ہیں۔قرآن پاک میں اللہ کریم فرماتے ہیں۔
“تم شکر کرو،میں تمہیں اور زیادہ دوں گا۔”
جدید سائنس کہتی ہے شکرگزاری کے جذبے سے سرشار افراد میں بیماریوں کی شرح کم ہوتی ہے۔
شکرگزاری کیسے بیماریوں سے بچاتی ہے؟
اگرچہ محققین کے لیے شکرگزاری اور کسی مخصوص بیماری کے درمیان تعلق کو ظاہر کرنا مشکل ہے۔تاہم سینکڑوں مطالعاتی جائزوں سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ شکرگزاری کا جذبہ صحت کے لیے بہت سے فوائد کا حامل ہے۔جیسا کہ:-
●دل کی دھڑکن پرسکون رکھنا
●فشار خون کو معتدل رکھتا
●بیماری کے بعد صحت مند ہونے کے عمل کو تیز کرنا
●عمل تنفس کو آسان بنانا
●مدافعتی قوت کو بڑھانا
●تیزابیت کم کرنا اور مزاج خوشگوار رکھنا وغیرہ۔
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جب آپ شکر گزار ہوتے ہیں تو خوشی کے ہارمونز کی ترسیل تیزی سے دماغ میں ہوتی ہے۔اس کی بدولت آپ اپنی قوت فیصلہ کا بروقت اور عمدہ فیصلہ اٹھا سکتے ہیں۔روزمرہ کے معمول کے کام جیسے کہ:-
کیا کھایا جائے؟کب سونا ہے؟ورزش کے لیے کون سا وقت مناسب رہے گا؟وغیرہ۔ان سب کاموں کے فیصلے بروقت اور خوش اسلوبی سے ہو جائیں گے۔یوں شکرگزاری کی عادت بہت سی ذہنی اور جسمانی بیماریوں سے بخوبی بچا لیتی ہے۔

●شکرگزاری اپنائیے،دل بچائیے

دل کی صحت کے حوالے سے کی جانے والی مختلف تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ایسے افراد جن کو دل کا دورہ پڑنے کے امکانات ہو سکتے تھے۔اگر ان کے اندر کسی بھی حوالے سے شکرگزاری کا جذبہ موجود تھا تو ان کی قلبی صحت میں بہتری آئی،اور دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ بہت کم ہو گیا۔نہ صرف یہ بلکہ شکرگزار افراد کا دل کی کسی بھی بیماری کا شکار ہو کر موت سے ملنے کے امکان بھی کم ہوتے ہیں۔مجھ پر تو یہ واضح ہو گیا ہے کہ شکرگزاری کا جذبہ صرف روح کے کے لیے ہی بہترین اثرات نہیں رکھتا بلکہ دل کے لیے بھی مفید ہے۔

●شکرگزاری اور ذیابیطس ٹائپ 2:-

اپنے کام کو اضافی وقت دینا،صحت مند خوراک نہ کھانا اور ورزش کی کمی ایسے عوامل ہیں جن کی بدولت جسم میں خون میں شکر کی مقدار کو ٹھیک رکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔نتیجتا ذیابیطس کا مرض آپ کو گھیر لیتا ہے۔طبی ماہرین کے نزدیک ہیموگلوبن A1C وہ پیمانہ ہے جو خون میں شکر کی مقدار ناپنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق جو افراد شکرگزاری کے جذبے سے سرشار رہتے ہیں ان میں A1C کی سطح نو سے تیرہ فیصد کم ہوتی ہے۔
مزید برآں تحقیق بتاتی ہے شکرگزار افراد ورزش کرنے،صحت بخش غذائیں جزو بدن بنانے اور دیگر صحت مند سرگرمیاں سرانجام دینے میں مشغول رہتے ہیں۔یوں ذیابیطس ٹائپ 2 کا خطرہ کم یا ختم ہو جاتا ہے۔

●سرطان سے نجات،شکرگزاری کے ساتھ:-

سرطان کی بہت سی اقسام اور سوزش کا باہمی تعلق ہے۔اس لیے جیسے سوزش کی بدولت سرطان کی کچھ اقسام حملہ آور ہو سکتی ہیں۔بالکل اسی طرح سرطان کی وجہ سے سوزش کا مرض بڑھتا ہے۔لہذا سوزش میں کمی کر کے سرطان میں یقینی طور پہ کمی پیدا کی جا سکتی ہے۔آپ شکرگزاری کا رویہ اپنا کر سوزش میں کمی پیدا کر سکتے ہیں۔اگر روزانہ کی بنیاد پہ ڈائری میں لکھا جائے کہ آپ کس کس بات پہ شکرگزار ہوئے تو آپ دیکھیں گے کہ آپ میں دوسروں کی مدد کا جذبہ تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔یہ رویے سوزش کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہوئے سرطان سے بچاتے ہیں۔

●فلو سے جنگ،شکرگزاری کے سنگ:-

دائمی اور بڑی بیماریوں کے علاوہ موسمی امراض جیسے کہ فلو میں بھی شکرگزاری کا جذبہ تیر بہدف ہے۔مدافعتی قوت کو بڑھانے اور مزاج کو خوشگوار رکھنے میں اس جذبے کا کلیدی کردار ہے۔اور یہی دو چیزیں موسمی وائرل مرض سے لڑنے کی طاقت دیتی ہیں۔ذہنی تناو ہمارے مدافعتی نظام کو سست کر دیتا ہے۔ایسے میں شکرگزاری کا جذبہ خود اعتمادی پیدا کرتے ہوئے معاشرے کی فلاح و بہبود کے احساسات کو ابھارتا ہے۔اضطراب کی کیفیت کو کم کرتے ہوئے کورٹیسول ہارمون جو غصے یا تناؤ کی کیفیت میں ردعمل دیتا ہے کے منفی اثرات کو بھی دباتا ہے۔

●شکرگزاری اور ڈیمینشیا :-

شکرگزاری کو اگر مستقل بنیادوں پہ اپنا لیا جائے تو یہ آپ کے ذہنی اور اعصابی نظام کے کام کرنے کے طریقہ کار پہ مثبت اثر ڈالتے ہوئے،اعصابی تعلق کو بڑھاتی ہے۔ادراک کی صلاحیت کو بہتر بناتی اور جذباتی طور پہ صحت مند رکھتی ہے۔ایسے عمر رسیدہ افراد جن میں شکرگزاری کا جذبہ موجزن ہو۔ان کی چیزوں اور معاملات کے بارے میں ادراک کی صلاحیت بشمول اچھی یادداشت کے بہت عمدہ ہوتی ہے۔وہ تنہائی پسند اور مضطرب نہیں ہوتے۔اور انہی تینوں عوامل کی وجہ سے ہی ڈیمینشیا میں مبتلا ہونے کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔

●مستقل درد اور شکرگزاری:-

شکرگزاری کے انسانی صحت پہ فوائد کے حوالے سے کی جانے والی تحقیق کا ایک خوش کن اور دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ یہ درد کے بارے میں آپ کا خیال تبدیل کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔نہ صرف دائمی دردوں میں کمی کا باعث بنتی ہے بلکہ درد کو مزید بڑھنے سے بھی روکتی ہے۔شکرگزاری کی عادت کو پختہ بنائیے۔آپ اپنے جسمانی درد میں واضح فرق دیکھنے کے ساتھ ساتھ دل میں دوسروں کے لیے خیر اور ہمدردی کے جذبات بھی محسوس کریں گے۔
بلاشبہ شکرگزاری باعثِ شفا ہے.

6 تبصرے “شکرگزاری باعثِ شفا

  1. شکرگزاری دراصل ہے کیا؟
    اللہ کی عطا کردہ نعمتوں،اور مخلوق کی طرف سے ملی بھلائیوں کا اقرار زبان سے،عمل سے اور دل سے کرنا۔
    آپ کے پاس موجود جو بھی نعمتیں ہیں،وسائل ہیں ان پہ راضی رہنا۔تقابل نہ کرنا۔حسد نہ کرنا بلکہ خوش ہو کر دوسرے کو اس کے پاس موجود نعمت پہ دعا دینا۔کوئی معمولی سی نیکی بھی آپ کے ساتھ کرے تو اس کا احسان ماننا۔دل کو وساوس سے بچا کر خوش گمان رکھنا۔یہ سب باتیں شکرگزاری کے زمرے میں آتی ہیں۔قرآن پاک میں اللہ کریم فرماتے ہیں۔
    “تم شکر کرو،میں تمہیں اور زیادہ دوں گا۔”

  2. بہت زبردست!
    اس طرف لوگوں کا دھیان بہت کم ہے، لوگوں کو اچھے جذبات کے فروغ کی طرف لانا چاہئے۔۔ یہ جسمانی طور پر صحت کے لیے فائدہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ صحت مند معاشرے کی تشکیل کے لیے بھی مفید ہیں!

  3. بہت عمدہ معلوماتی مضمون ہے۔اللہ کریم کا شکرگزار انسان ہی مخلوق کا شکرگزار ہو سکتا ہے۔

  4. کام کی باتیں ہیں!
    ہم عموما کسی مذہبی و اخلاقی عبادت و اچھائی پر عمل کرنے کے لیےسائنسی تحقیقات کے نتائج دیکھ کر تیار ہو جاتے ہیں، یہ ویسے تو افضل نہیں ہے، لیکن اگر کوئی انھیں ہی سامنے رکھ کر عمل کرنا شروع کر دے تو دنیاوی و اخروی فائدے سے خالی نہیں ہو گا۔۔۔ اصل شرط عمل کرنا ہے
    اللّٰہ تعالیٰ ہمیں شکرگزار بندوں میں شامل فرمائے۔۔۔ آمین

  5. شکرگزاری اور صحت کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ بلاشبہ شکرگزاری کی عادت ہمیں ہشاش بشاش اور خوش وخرم رکھتی ہے،

اپنا تبصرہ بھیجیں