Your theme is not active, some feature may not work. Buy a valid license from stylothemes.com

آب زمزم. معلومات و تاریخ

آب زمزم
مکہ معظمہ کی مسجد الحرام میں کعبہ شریف سے پندرہ میٹر کے فاصلے پر جنوب مشرق میں حجر اسود کی سیدھ میں ایک کنواں واقع ہے . جس کے پانی کو آب زمزم کہتے ہیں. یہ کنواں کعبہ شریف سے بھی قدیم ہے اور اس کی گہرائی کے بارے میں اب تک قیاس یہ تھا کہ وہ ایک سو چالیس فٹ ہے
لیکن حالیہ پیمائش پر یہ دو سو سات فٹ گہرا پایا گیا ممکن ہے اس کی مسلسل نکاسی کی وجہ سے یہ نیچا ہو گیا ہو . مسلمانوں کے نزدیک اس کا پانی متبرک ہے. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کھڑے ہو کر پیا اور ایک خصوصی دعا بھی فرمائی
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ عِلْمًا نَّافِعًا وَّرِزْقًا وَّاسِعًا
وَّشِفَاءً مِّنْ کُلِّ دَآء
اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ایک ایسے علم کا جو فائدہ دینے والا ہو اور ایسے رزق کا جس میں وسعت رکھی گئی ہو اور مجھے تمام بیماریوں سے شفا مرحمت فرما
آپ خود اسے بڑے احترام سے پیتے رہے اور جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو صلح حدیبیہ کے موقع پر منگوا کر پیا اور واپسی میں ساتھ لے کر آئے.
ان کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بھی اس سے مزید استفادہ کے لیے حج کے بعد واپسی میں ساتھ لایا کرتے تھے اور یہ خوبصورت رسم اسی اہتمام سے آج بھی جاری ہے.
تاریخی پس منظر
اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی حضرت ہاجرہ علیھاالسلام کو ان کے نومود حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مکہ کی بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ آئیں. جب یہ قافلہ منزل مقصود پر پہنچا تو اس صابر و شاکر خاتون نے صرف ایک بات اپنے میاں سے پوچھی ” کیا ہمارا یہاں آنا اور رہنا اللہ کے حکم کی تعمیل میں ہے ؟” جواب اثبات میں پا کر وہ مطمئن ہو گئیں کیونکہ جو ان کو وہاں لایا ہے وہی ان کی خبر گیری بھی کرے گا. خوراک اور پانی کا وہ ذخیرہ جو ان کے ہمراہ تھا تھوڑی دیر میں ختم ہو گیا بچہ بھوک اور پیاس سے بلکنے لگا اور وہ پریشانی کے عالم میں صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان دوڑ کر پانی کی تلاش کرتی رہیں.
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اس واقعہ کی پوری تفصیل قلمبند کی ہے جس کے مطابق حضرت ہاجرہ علیھاالسلام پریشانی کے عالم میں کبھی صفا کی پہاڑی پر جا کر دیکھتیں اور کبھی مروہ سے کہ شاید کہیں پانی یا آنے والا کوئی شخص نظر آ جائے جس سے وہ مدد لے سکیں اس عالم میں انہوں نے ایک آواز سنی. انہوں نے فورا اسے مخاطب کر کے نیکی کے نام پر مدد کی درخواست کی تو حضرت جبرائیل علیہ السلام ظاہر ہوئے اور انہوں نے حکم خداوندی سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑی کے نیچے یہ پانی کا چشمہ جاری کردیا،
حضرت ہاجرہ علیھاالسلام نے گھبراہٹ میں پتھر جمع کر کے اس کے ارد گردایک ہالہ سا بنا دیا کہ پانی ضائع نہ ہو اور کچھ دن کے لیے ذخیرہ ہو جائے. اضطراری حالت میں تحفظ آب کی اس کوشش کے بارے میں بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاجرہ علیھا السلام اگر اسے محدود نہ کرتیں تو یہ چشمہ ایک دریا بن جاتا اور پورے عرب کو سیراب کرتا .
اس بے آب و گیاہ صحرا میں صرف اللہ کے حکم کی تعمیل میں دکھ جھیلنے والی ہاجرہ علیھا السلام کو اللہ نے رہتی دنیا تک عزت اور شہرت عطا کر دی. جس جگہ پر آپ دوڑیں تھیں آج ہر مسلمان حج اور عمرہ کے لیے ان کی تقلید کرتا ہوا ان کی تکلیف اور صبر پر عملی داد دیتا ہے . ان کے بیٹے کے لیے اللہ نے جو کنواں پیدا کیا وہ ہر مسلمان کے لیے برکت, احترام اور شفا کا مظہر ہے .
زم زم کا کنواں کچھ عرصہ جاری رہا پھر صحرائی بگولوں کی زد میں آ کر غائب ہو گیا۔
کہا جاتا ہے کہ مکہ کے رئیس عبدالمطلب کو خواب میں کنویں کی نشاندہی کی گئی اور ہدایت کی گئی کہ وہ اسے کھدوا کر صاف کریں اور خلق خدا کی منفعت کے لیے جاری کریں۔ انہوں نے اسے صاف کروایا اور ارد گرد پتھروں سے بلند منڈیر تعمیر کرائی۔
صفائی کے دوران زم زم کے کنویں سے سونے کے دو برتن، کچھ تلواریں اور زرہ بکتر برآمد ہوئے۔ مورخین کا خیال ہے کہ یہ چیزیں ایرانی زائرپھینک گئے ہونگے۔ آثار و قرائن سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شکست خوردہ لشکر ادھر آ نکلا اور جب وہ تعاقب کرنے والوں کے نرغے میں آئے تو انہوں نے اپنی متاع کو دشمن کے ہاتھ پڑنے سے بچانے کے لیے کنویں میں پھینک دیا۔
عبدالمطلب نے ایک طلائی برتن توڑ کر اس کے سونے سے کعبہ شریف کے دروازے پر پتریاں چڑھادیں۔ دوسرا برتن نمائش کے لیے کعبہ شریف میں رکھا رہا۔ انیس سو نو میں زم زم کے کنویں کا پانی طوفان کی صورت میں ابلنے لگا اور اتنا پانی نکلا کہ آس پاس کی آبادیاں ڈوب گئیں۔ اس حادثہ میں سینکڑوں حاجی ڈوب گئے۔
ترک حکمرانوں نے اس کنویں کے اردگرد غلام گردش بنا دی۔ اور اوپر گنبد نما چھت ڈال دی۔ آل سعود کی آمد تک اس کے ارد گرد پانچ فٹ اونچی سنگ مرمر کی منڈیر تھی جس کے اوپر چھت تک لوہے کا مضبوط جنگلہ تھا۔
قیام مکہ کے دوران حجاج اپنے لئے کفن کا کپڑا خرید کر اس متبرک پانی میں بھگو کر خشک کر کے اپنے وطن واپس لے جاتے ہیں۔ سعودی حکومت نے حرم کعبہ کی توسیع میں زمزم کے کنویں کو جدید شکل دے دی ہے۔ زم زم کے کنویں پر چھت ڈال کر اس کے اوپر ایک طاقتور پمپنگ انجن نصب کر دیا ہے جو پانی کو ایک بہت بڑی ٹینکی میں ڈال دیتا ہے۔
آب زمزم کی مقبولیت اور تقدس سے متاثر ہوکر کئی مذاہب نے اپنے پیرو کاروں کے لئے مقدس پانی تلاش کر لئے ان میں سے اکثر پانی بیماریوں کا باعث ہوئے۔
کمال کی بات یہ ہے کہ پوری تاریخ اسلام میں آج تک کوئی شخص زمزم کا پانی پی کر بیمار نہیں ہوا اس کے برعکس ایسا کوئی پانی تاریخ کے کسی دور اور کسی ملک میں ایسا مشہور نہیں ہوا جس کی وجہ سے لوگ بیمار نہ ہوئے ہوں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمارے اور منافقوں کی درمیان فرق یہ ہے کہ وہ آب زمزم کو خوب سیر ہو کر نہیں پیتے ۔ (ابن ماجہ )
حضرت عبداللہ بن عباس روایت کرتے ہیں
کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
زمزم کا پانی جس غرض سے بھی پیا جائے اس کے لیے مفید ہو گا اگر شفا کی غرض سے پیا جائے تو اللہ تمہیں شفا دے گا اگر پیاس کے لیے پیو گے تو اللہ اس سے تسلی دے گا اور اگر سیراب ہونے کے لیے پیو گے تو اللہ تمہیں سیراب کرے گا۔
یہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کا کنواں ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کا پہاڑ ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے
زم زم کا پانی جس غرض سے بھی پیا جائے مفید ہے۔ ( ابن ماجہ)
ابن القیم گواہی دیتے ہیں کہ انہوں نے پیٹ میں پانی کے مریض زمزم پی کر تندرست ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔
حرم شریف کے ایک خادم نے بتایا کہ ایک کینسر کا مریض جو جاں بلب تھا لوگ اسے اٹھا کر نماز کے وقت مسجد میں لاتے تھے۔ روزانہ زمزم پیتا اور اپنی رسولیوں پر ڈالتا چند دن میں پوری طرح تندرست ہوگیا۔
ذیابیطس کا جو بھی مریض حج کرنے گیا اور باقاعدگی سے زمزم پیا اس کے خون اور پیشاب سے شکر ختم ہوگئی۔
حج کے دوران بلڈ پریشر کے کسی مریض کو کبھی کسی دوائی کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ زم زم پینے کے بعد پیٹ کی گرانی فوراً دور ہو جاتی ہے۔
تیزابیت جاتی رہتی ہے ،بھوک باقاعدگی سے لگتی ہے ،حافظہ بہتر ہو جاتا ہے ،جو بھی یقین کے ساتھ اسے پیتا ہے اپنا مطلب پاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں